Thursday, 3 November 2016

سمیرا میری پیاری سالی

سمیرا میری پیاری سالی

یہ کہانی جو میں آپ لوگوں کو سنانے جا رہا ہوں یہ میری اور میری سالی کی ہے۔میری شادی میری پسند سے ہوئی تھی۔ میری بیوی ایک خوبصورت ترین اور سیکی عورت ہے۔ اور میری سالی بھی کسی سیکس کی پڑیا سے کم نہیں تھی۔ میری شادی کو تین سال ہو چکے تھے میری بے تکلفی میری سالی کے ساتھ کافی زیادہ تھی۔ میرا سسرال پٹھان فیملی سے تعلق رکھتا ہے انکے خاندان کی ساری لڑکیاں ایکدم سرخ سفید ہیں۔ اور بہت ہی خوبصورت اور سیکسی۔
میری سالی کی عمر اس وقت بیس سال تھی جبکہ میری بیوی بائیس سال کی تھی اور میری اپنی عمر اٹھائیس سال تھی۔ میں اس وقت ایک کمپنی میں بہت اچھی جاب پر تھا میرا ٹرانسفر کمپنی نے ایک دوسرے شہر کردیا تھا جہاں نہ تو میرے گھر والے تھے اور نہ ہی میرے سسرال والے یہ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے تھے۔ میں اپنی بیوی کو لے کر اس گھر میں شفٹ ہو گیا تھا۔ میری بیوی کا نام حمیرا تھا جبکہ میری سالی کا نام سمیرا تھا۔ ایک دن

میری بیوی نے مجھے بتایا کہ وہ سمیرا کو یہاں بلوا رہی ہے وہاں گھر میں کچھ پرابلم ہے اور سمیرا کافی ڈسٹرب ہے۔ میں نے اسکو بخوشی اجازت دے دی اس میں منع کرنے والی کوئی بات تھی بھی نہیں کیونکہ سمیرا کو نزدیک رکھنا تو میری دلی خواہش تھی میں اسکے ساتھ سیکس تو نہیں کر سکتا تھا مگر اسکو اپنے قریب تو رکھ سکتا تھا حالانکہ میرے دل میں اسکے ساتھ سیکس کرنے کی شدید خواہش تھی۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس میں سیکس کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ کس پاگل کا دل نہیں چاہے گا اسکے ساتھ سیکس کرنے کا۔ میں بھی تو آخر مرد تھا ایک روٹی سے پیٹ کہاں بھرتا ہے۔
خیر کچھ دن بعد سمیرا ہمارے گھر آگئی اسکے چہرے کی اداسی سے مجھے کچھ اندازہ تو نہ ہوا مگر یہ سمجھ آگیا کہ واقعی کچھ گڑبڑ ہے۔ خیر سمیرا آگئی۔ اب اسے کچھ دن یہاں رہنا تھا۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ بات چیت نہیں کر رہی تھی۔
میں آپ کو یہ بتابا بھول گیا کہ میری بیوی اپنا وقت گذارنے کے لیے ایک اسکول میں پڑھا رہی تھی۔ سارا دن وہ اکیلی ہوتی تھی تو اس نے ایک اسکول میں جاب اسٹارٹ کردی وہ دن میں واپس گھر آجاتی تھی۔ خیر سمیرا کو رہتے ایک ہفتہ ہوگیا تھا میں اور میری بیوی اسکو تقریباً روزانہ ہی باہر لے جاتے تھے اور رات کو دیر سے واپس آتے تھے تاکہ سمیرا کا دل بہل جائے۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا تھا کہ وجہ کیا ہے جو سمیرا اتنی اداس اور اپ سیٹ ہے تو میری بیوی نے بتایا کہ ابو اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف کرنا چاہتے ہیں وہ کسی اور لڑکے میں دلچپسی رکھتی ہے جبکہ والد اسکے خلاف اپنے دوست کے بیٹے سے اسکی شادی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے نہ ماننے پر اسکے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں۔ میں یہ سن کر سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کیا جائے سمیرا تو کسی اور میں دلچسپی رکھتی ہے وہ تو کبھی بھی ہاتھ نہیں رکھنے دے گی۔ اور اگر اس نے شور مچا دیا تو میری تو زندگی تباہ ہو جائے گی۔
گر ایک رات اچانک میرے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ میری بیوی اس رات مزے سے میرے ساتھ بھرپور سیکس کرنے کے بعد سو رہی تھی۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی تو میں اٹھا اور فریج سے پانی نکالنے لگا تو معلوم ہوا کہ کمرے میں رکھے فریج میں ایک بھی بوتل ٹھنڈے پانی کی نہیں ہے تو میں نے کمرے سے باہر جا کر کچن کے فریج سے پانی پینا چاہا۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کچن کے سامنے ٹیلی فون کا اسٹینڈ تھا جہاں سمیرا کھڑی کسی سے فون پر باتیں کر رہی تھی اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا کسی نہ کسی چیز کی آڑ لیتا ہوا سمیرا کے نزدیک پہنچ گیا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سمیرا نے اپنا ایک ہاتھ اپنی شلوار میں ڈالا ہوا تھااور یقیناً وہ اپنی چوت کو مسل رہی تھی بلکہ وہ ان ہدایات ہر عمل پیرا تھی جو اسے فون پر مل رہی تھیں شاید وہ اپنے بوائے فرینڈ سے باتیں کر رہی تھی اور انکے تعلقات کافی زیادہ تھے جو کہ شاید سیکس تک جا پہنچے تھے سمیرا اس سے باتوں میں بھی اپنی چاہت اور سیکس کی طلب کا اظہار کر رہی تھی۔ اور وہ لڑکا شاید اسکو گائیڈ کر رہا تھا کہ کس طرح وہ اس وقت اپنی پیاس بجھا سکتی ہے سو وہ ایسا ہی کر رہی تھی۔
یہ سب دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا تو لگا مگر میری خوشی کی انتہا بھی نہ رہی کیونکہ میں اب سمیرا پر ہاتھ ڈال سکتا تھا اب تک میں یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ سیل پیک ہوگی اور اس لڑکے کے علاوہ کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دے گی۔ مگر انکے تعلقات کا اندازہ کر کے میں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ اب سمیرا پر ہاتھ ڈالنا مشکل نہیں ہے۔اگر اس نے شور بھی مچایا تو میں اسکو اس فوں پر ہونے والی بات چیت اور اسکی حرکتوں کو بتا کر بلیک میل کرسکتا ہوں۔ اب میرے ہاتھ میں سمیرا کی کمزوری آگئی تھی۔خیر یہ سب دیکھ کر مین پانی پیئے بغیر واپس آگیا۔ اور اسکے بعد مجھے نیند نہیں آئی میں پوری رات سوچتا رہا اور منصوبہ بناتا رہا کہ کسی طرح سمیرا پرہاتھ رکھا جائے کہ وہ آرام سے میری بانہوں میں آجائے۔ خیراسی سوچ بچار میں صبح ہوگئی اور میرے آفس جانے کا وقت ہوگیا ۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ سمیرا ابھی تک سو رہی ہے ناشتہ نہیں کرے گی وہ ۔ اس نے جواب دیا ہاں پتہ نہیں ابھی تک سو رہی ہے شاید طبیعت ٹھیک نہ ہو میں دیکھ لونگی آپ ناشتہ کر کے آفس جائیں مجھے بھی دیر ہو رہی ہے اسکول سے ۔ میں اسکی بات سن کر ناشتہ کرنے میں مصروف ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد آفس کے لیے روانہ ہوگیا۔ آفس میں بھی سارا دن میں منصوبے ہی بناتا رہا پھر شام کو واپس آیا تو میری بیوی میرے لیے ایک خوشخبری لے کر بیٹھی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسکول میں ایک سیمینار ہو رہا ہے اسکو دو دن کے لیے ہیڈ کوارٹر طلب کیا گیا ہے جو کہ دوسرے شہر میں تھا، میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے میں آفس میں چھٹیوں کے لیے اپلائی کر دیتا ہوں پھر ساتھ چلیں گے۔ اس نے جواب دیا نہیں مجھے اکیلے ہی جانا ہوگا کسی کے ساتھ نہیں جاسکتی کیونکہ اسکول کی اور بھی ٹیچرز ہیں جو جارہی ہیں سارا انتظام اسکول کررہا ہے ہماری رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا۔ یہ سن کر تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا پھر میں نے کہا میں کیا گھر میں اکیلا رہونگا اس نے جواب دیا سمیراہے نہ آپکے ساتھ اور پھر میں دو دن میں واپس آجاؤنگی۔ میں نے اداس ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کو اجازت دے دی۔ پھر ہم لوگوں نے کھانا کھایا اور سونے کی تیاری کرنے لگے میں نے اپنی بیوی کو اپنے اعتماد میں رکھنے کے لیے اس سے پوری رات بھرپور پیار کیا اور اسکو سیکس کا ہر ممکن مزہ دیا۔ وہ صبح جب اٹھی تو بڑی خوش تھی کہ اسکو اتنا پیار کرنے والا شوہر ملا ہے جو اسکی دو دن کی جدائی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔
ر میری بیوی فٹافٹ تیار ہو کر اپنے اسکول چلی گئ اب اسکو تیسرے دن واپس آنا تھا۔ اب گھر میں میں اورسمیرا تھے، مجھے بھی اب آفس جانا تھا سو میں بھی تیار ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی آفس چلا گیا۔ خیر میں پلان کر چکا تھا کہ آج کی رات کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ آفس میں اپنا پلان ترتیب دیا اور اس پر عمل کرنے کا سوچ لیا۔
میں آفس سے واپس شام میں گھر آیا تو سمیرا کے اندر کچھ بے چینی محسوس کی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو مگر کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی خیر میں اس کو نظر انداز کرتا رہا۔ پھر اسی طرح وقت گذرا اور رات کے کھانے کا وقت ہوگیا سمیرا نے بہت اچھا کھانا بنایا تھا میں کھانے کے دوران اسکے کھانے کی تعریف کرتا رہا اور وہ شکریہ ادا کرکے خاموشی سے کھانے میں مصروف رہی۔خیر کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر سمیرا تو برتن دھونے چلی گئی اور میں چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا گیا جیسے مجھے سونا ہو مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا سمیرا سے کس طرح بات شروع کروں ابھی سوچتے کچھ دیر ہی گذری تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی میں نے بولا آجاؤ سمیرا اندر آگئی میں نے کہا کیا ہوا ٹھیک تو ہو۔ وہ خاموشی سے میرے سامنے بیٹھ گئی اور کچھ نہ بولی میں نے اس سے پوچھا کیا ہوا سمیرا بتاؤ کیا بات ہے۔ تم پریشان کیوں لگ رہی ہو مجھے۔ پھر وہ بلک بلک کر ایکدم سے رونا شروع ہوگئی میں اٹھا اور اسکے نزدیک گیا اور اسکو تسلی دینے لگا کچھ دیر رونے کے بعد وہ چپ ہوئی تو پھر اپنی کہانی سنانا شروع کردی۔اس نے بتایا کہ وہ کسی لڑکے سے محبت کرتی ہے اور اس سے ملی بھی کئی دفعہ ہے اور اسکے سوا کسی اور سے شادی نہیں کرنا چاہتی ہے۔ اور اسکو میری مدد کی ضرورت ہے میں نے ایکدم اس سے ایک ایسا سوال کردیا جسکو سن کر وہ اچھل پڑی میں نے اس سے پوچھا تم نے اس لڑکے کے ساتھ سیکس کیا ہے۔ وہ یہ سوال سن کر حیرت سے مجھے دیکھنے لگی پھر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا پھر سر جھکا کر آہستہ سے بولی نہیں ایسا کچھ نہیں کیا میں نے ۔ پھر میں نے کہا کچھ تو ایسا ضرور ہے جو تم کو اتنی طلب ہے اسکی۔ ورنہ ایسا نہیں ہوتا۔ اب سمیرا لاجواب تھی اسکی چوری پکڑی جارہی تھی۔ پھر وہ بولی ہم لوگ ملے ضرور ہیں مگر کوئی غلط کام نہیں کیا ہم نے۔ پھر میں اسکو باتوں میں لگاتا رہا اور آخر کار میں نے اگلوالیا کہ ان دونوں نے کسنگ بھی کی ہے اور ایک دوسرے کو ننگا تک دیکھا ہے مگر سیکس نہیں کیا۔ سو اب باری میری تھی اپنا پتہ چلنے کی۔
میں نے پوچھا تمہیں بہت طلب ہے اسکی؟
جی! سمیرا نے جواب دیا

No comments:

Post a Comment