Friday, 23 September 2016

میرا نام پری زاد ہے

میرا نام پری زاد ہے

دوستو میرا نام پری زاد ہے اور میں آپ کی خدمت میں اپنی کہانی لے کر حاضر ہوا ہوں۔اگر پسند آئے تو اپنی قیمتی آرا سے نوازنا مت بھولیے گا۔میرا فیس بک اکاؤنٹ ہیک ہوگیا ہے۔لیکن آپ میری ای میل پر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
اس داستان کے مرکزی کردار ایک خاتون فردوسی اور ایک (جن ) اگناس ہیں۔ باقی کردار ثانوی ہیں ان ہی میں ایک چوہدری بلال تھے جو ایک پنڈ کے چوہدری تھے شادی شدہ تھے اور ان کے تین بچے تھے ۔ان کی بیگم کا نام فردوسی بیگم تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ فردوسی بیگم بہت ہی حسین وجمیل خاتون تھیں ۔ان کے حسن کے چرچے دور دور تک تھے۔وہ صرف حسین ہی نہیں تھیں بلکہ کافی دلکش شخصیت کی مالک بھی تھیں ۔تین بچوں کی ماں بننے کے باوجود بھی ان کے سراپا میں ایک عجیب سی جنسی کشش
محسوس ہوتی تھی۔چوہدری بلال بھی اپنی بیگم سے بہت پیار کرتے تھے۔غرض ان کا گھرانہ کافی خوشحال تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار چوہدری بلال کو ان کے دوست کے چھوٹے بھائی کی شادی میں جانا تھا تو ان کے بچے بھی ضد کرنے لگے کہ وہ بھی ساتھ جائیں گے ۔چوہدری بلال نے سوچا جب بچے ساتھ جارہے ہیں تو بیگم کو بھی لے چلتے ہیں۔ یوں چوہدری بلال اپنے خاندان کے ساتھ بیل گاڑی پر سوار ہوئے اور چل پڑے ۔چوہدری بلال کے دوست کا گاؤں ان کے اپنے گاؤں سے ۵۰ کوس دور تھا ۔
وہ صبح ۰۰۔۹ بجے سوار ہوئے تھے اوردوپہر تک چلتے رہے ۔ان کا سفر جاری تھا کہ اچانک ایک باغ کے نزدیک ان کی بیل گاڑی کا پہیہ خراب ہوگیا ۔ سب لوگ گاڑی سے نیچے اتر آئے۔گاڑی بان پہیہ جوڑنے لگا ۔چوہدری بلال وقت گزاری کے لیے باغ کے گرد ٹہلنے لگے ۔ان کے بچے بھی کھیل کود میں مصروف ہوگئے اور فردوسی بیگم کچھ دیر تک تو بچوں کے ساتھ ہی رہیں اس کے بعد وہ ایک درخت کی چھاؤں میں جاکر بیٹھ گئیں ۔ چوہدری بلال ایسے ہی مٹر گشت کررہے تھے بچے بھی کھیل میں مشغول تھے اور فردوسی بھی درخت کے تنے سے ٹیک لگائے ان کو دیکھ رہی تھیں۔ اچانک ہی فردوسی بیگم کو اپنے عقب میں کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔انہوں نے دیکھا تو ایک موٹا تازہ مگر خوبصورت اور پیلی دھاریوں والی چمکدار جلد والا بلا اپنی گہری نیلی آنکھوں سے انہیں گھوررہا تھا۔ فردوسی بیگم کچھ دیر تک بلے کو غور سے دیکھتی رہیں پھر بے اختیار ان کے ہاتھ بلے کی طرف بڑھے اور انہوں نے بلے کو اٹھاکر اپنی گود میں بٹھالیا۔پھر وہ بلے کے جسم اور سر پر ہاتھ پھیر نے لگیں ۔بلے کی جلد اتنی چکنی اور ملائم تھی کہ فردوسی بیگم بلا وجہ ہی بلے کے جسم اور سر کو سہلائے جارہیں تھیں۔ بلا بڑے مزے سے فردوسی بیگم کی گود میں بیٹھا ہوا تھا ۔وہ کچھ دیر تک ایسے ہی انکی گود میں بیٹھا رہا پھر اس نے اپنا منہ فردوسی بیگم کے سینے میں رگڑنا شروع کردیا۔فردوسی کو بلے کی یہ ادا ایسی بھائی کہ وہ بلے سے ہلکی ہلکی پیار بھری اٹھکھیلیاں کرنے لگیں اسے گدگدانے لگیں۔ادھر بچے کھیل کر تھک چکے تھے وہ اپنی ماں کے پاس آئے تو انہیں ایک بلے سے کھیلتے دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔وہ سب بھی بلے کے پاس آئے اور اس سے کھیلنے لگے۔ فردوسی بیگم نے بلے کو اپنی گود سے اتاردیا اور بچوں کے حوالے کردیا ۔بلا بے دلی سے بچوں سے کھیلنے لگا ساتھ ہی وہ کن اکھیوں سے فردوسی بیگم کو دیکھتا جارہا تھا جو اب اپنے ہاتھ باندھے بچوں کودیکھ کر مسکرارہی تھیں۔کچھ دیر بعد گاڑی بان نے اعلان کیا کہ پہیہ درست کردیا گیا کچھ دیر بعد گاڑی بان نے اعلان کیا کہ پہیہ درست کردیا گیا ہے ہے لہذا سفر شرو ع کیا جائے ۔چوہدری بلال بھی واپس آچکے تھے ۔ لہذا سب گاڑی کی طرف چل پڑے ۔جب وہ سب گاڑی کی طرف جانے لگے تو بلے نے بھی فردوسی بیگم کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا ۔یہ دیکھ کر بچے ضد کرنے لگے کہ بلے کو بھی ساتھ لے چلیں ۔چوہدری بلال قدرے ناگواری سے بلے کو دیکھ کر کہنے لگے ۔ارے بھئی اسے کہاں ساتھ لیے لیے پھریں گے ۔فردوسی بیگم جو اب بلے سے کچھ انسیت سی محسوس کررہی تھیں ۔مسکراکر شوہر سے کہنے لگیں ۔لے چلیں نہ اسے بھی ساتھ بچے بھی خوش ہوجائیں گے۔بادل نخواستہ چوہدری بلال راضی ہوگئے ۔ لہذا پھر سے انکا سفر شروع ہوگیا ۔چوہدری بلال اور ان کے سارے رشتے دار اس شادی میں شریک ہوئے تھے۔خوب ہنگامہ رہا سب نے خوب ہلا گلا کیا۔سب لوگ بلے کو دیکھ کر حیران ہوئے تھے کچھ نے تو اسے گود میں لینے کی کوشش بھی کی لیکن وہ بلا کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا۔البتہ فردوسی بیگم کے آس پاس ہی منڈلاتا رہتا تھا۔جب بھی کبھی وہ فردوسی بیگم کو فارغ بیٹھا دیکھتا جھٹ جاکر انکی گود میں بیٹھ جاتا اور انکے سینے پر اپنا منہ رگڑنے لگتا۔فردوسی بیگم بھی اس کے سر اور جسم پر ہاتھ پھیرنے لگتیں۔آخر کار شادی کا ہنگامہ اپنے اختتام کو پہنچا اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلنے کی تیاری کرنے لگے ۔چوہدری بلال بھی اپنے خاندان کے ساتھ واپس جانے لگے۔ ایک دفعہ پھر وہ بلا انکا ہمسفر تھا۔راستہ بخیریت کٹ گیا اور یہ ل

No comments:

Post a Comment